شریعت، طریقت، حقیقت


عرفان میں، تعلیماتِ پیغمبراں کی مراتبِ سہ گانہ کی اِس طرح شرح و توصیف کی گئی ہے:

مرتبۂ اوّل شریعت ہے جو قوانین و سنّت پر مشتمل ہے۔
مرتبۂ دوم طریقت ہے جو سیر و سلوک اور طریق طے کرنا ہے۔
مراتب میں سے مرتبۂ سوم حقیقت ہے جو مقصد سے وصل ہونا ہے۔


عرفا نے تصوّف یا عرفان کے مراتب، یعنی شریعت (قوانینِ اسلام)، طریقت (سیرِباطنی) اور آخر میں حقیقت (حق سے وصل) کی اساس پر توصیف کی ہے۔ عرفان در اصل کشفِ حقیقت کے لیے کُلّیۂ مراتب میں تزکیے، خلوص اور صفا پر مشتمل ہے اور ابتداءً صفاتِ دَنی و مذموم سے تزکیۂ نفس، اس کے بعد علائق و صفاتِ انسانی کی نفی اور نہایتًاعروج اور تجلّیاتِ الٰہی کا کشف ہے۔ 1

مولانا جلال الدیّن علی میر ابوالفضل عنقا اپنی کتابوں میں شیخ نجم الدّین کبرٰی سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"تصوّف تین مراتب پر مشتمل ہے: شریعت، طریقت اور حقیقت۔ فرمایا: "شریعت کشتی کی طرح ہے، طریقت سمندر کی مانند اور حقیقت موتی کی مثل۔ پس جو بھی موتی کا خواہش مند ہو، کشتی پر سوار ہو کے سمندر میں سفر کرتا ہے اور موتی تک پہنچ جاتا ہے۔" اور فرمایا: "شریعت میں طہارت و پاکیزگی پانی سے ہے اور طریقت میں ہواے نفس سے بچنے سے، اور طریقت میں تمام موجودگیوں سے جدا ہوکے رحمٰن پر کُلّی توجّہ رکھنا اور ہر زمان و مکاں میں لذّاتِ مناجات میں استغراق نماز ہے۔" 2

شریعت و حقیقت کے معنی میں کہا جا چکا ہے کہ شریعت بندگیٔ حق ہے اور حقیقت، مشاہدۂ حق ہے۔
مولاے مومنین حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:
" دل میں ایمان نقطۂ نورانی کی صورت پیدا ہوتا ہے اور جتنا ایمان بڑھتا ہے اُتنا ہی اُس نقطے میں اضافہ ہوجاتا ہے۔"اور یہ نقطہ قلبِ بشر میں عقدۂ حیاتی ہے جو علمِ ازلی کا مرکز ہے۔3

لغت میں نماز کے معنی دُعا کے ہیں اور یہ قربِ خدا کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ نماز ان خصائلِ سہ گانہ کی جامع ہے، جیسا کہ امیرالمومنین علی(ع) نےفرمایا: "شریعت درحقیقت بندگیٔ حق ہےاور طریقت درحقیقت حضور در حق اور حقیقت درحقیقت مشاہدۂ حق ہے۔" امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں: "نماز خدمت ،قربت اور وصلت ہے۔ خدمت وہی شریعت ہے، قربت وہی طریقت اور وصلت وہی حقیقت ہے۔در اصل کُلیّۂ احکام مراتبِ سہ گانہ پر مشتمل ہیں۔ مثلًا: "صوم (روزہ) شریعت میں کھانے، پینے وغیرہ سے رک جانا ہے اور طریقت میں اوہام سے رک جانا اور محبّتِ ربّ الانام میں مشغول ہوجانا ہے۔"اور "شریعت میں حج زیارتِ بیت اللہ ہے، طریقت میں زیارتِ تجلیّاتِ اللہ تعالٰی اور حقیقت میں فنا فی اللہ ہونا ہے۔ حج وہی زیارتِ بیت اللہ ہے اور مردانِ خدا کا حج زیارتِ صاحبِ خانہ ہے۔" 4

جس وقت سالک ان تمام چیزوں کا خیال رکھتا ہے، جن کا ذکر ہو چکا تو اپنی شرحِ صدر تک پہنچ کے عبادات و طاعات میں زبان و جوارح ملکاتِ نفسانیّہ کے انوار سےتقویت پاتے ہیں اور اِس قولِ الٰہی کے مصداق ٹھیرتے ہیں کہ: "اللہ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظّلمات الی النّور (سورۂ ۲/بقرہ، آیت۲۵۷) (اللہ حامی اور مددگار ہے اُن لوگوں کا جو ایمان لاتے ہیں۔ نکالتا ہے اُن کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف) اور اُس کے حکمِ اخلاص سے، حکمت کے چشمے انسان کےقلب سے اُس کے زبان پر جاری ہو تے ہیں اور وہ اُن چیزوں کو دیکھتا ہے جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی ہوں اور نہ کسی کان نے سنی ہوں اور نہ کسی انسان کے دل پر اُن کا گزر ہوا ہو، وہ تجلیّاتِ صفات کو عینِ عیان کے ساتھ دیکھتا ہے۔ جب خداوند کسی بندے کا خیر چاہتا ہے اُس کے چشمِ دل کو وا کر دیتا ہے اور سلوک میں، اُس کےامر کو جذبے تک پہنچاتا ہے اور نسیمِ رحمت کو اُس سےملحق کردیتا ہے اور کراماتِ ذاتی سے اُس کی مدد اور مساعدت کرتا ہے۔" 5

حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا یوں فرماتے ہیں:
جو کچھ زبانِ قلب پر آیا، میں نے اُسے ورق پر رقم کر دیا تاکہ تیرے دل کو صاف کر دے اور تو سرِّ حق کو پڑھے، میں حرفِ دیگر اور وجدِ دیگر کا حامل ہوں، لیکن سننے کے لیے گوشِ دیگر اور ہوشِ دیگر کا طلب گار ہوں۔ بندے کے لیے مجاہدہ آمادہ ہونا ہے اور خداوند کی جانب سے ہدایت و ارشاد۔ وماتوفیقی الّا باللہ واللہ المستعان و علیہ التکلان۔ 6


I. Annemarie Schimmel, Mystical Dimensions of Islam (University of North Carolina Press, 1975), 16.
2. Hazrat Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa’el-Purification and Enlightenment of the Hearts (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 4.
3. Hazrat Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa’el- Al Salat (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 31-38.
4. Hazrat Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa’el - Purification and Enlightenment of the Hearts (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 4-5
5. Ibid., 7.
6. Hazrat Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Salat: The Reality of Prayer in Islam (Riverside, CA: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1998), 10-12.