ذکر:یاد

فَاذکُرونی اذکُرکُم
تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا۔
(سورہ بقرہ، آیت۱۵۲)

جو لوگ ایمان لے آئے، اُن کے دلوں کو خدا کی یاد سے سکون ملتا ہے۔ آگاہ رہو، خدا کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔

(سورہ رعد، آیت ۲۸)


لفظ 'ذکر' یاد کے معنوں میں ہے اور بطورِ اخص "خداوند کی یاد " ہے، جو یک تا معشوق ہے۔

سیّد الموحّدین حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں: "ذکر دماغ سے مانوس ہوتا ہے، دل کو روشن کرتا ہے اور رحمت نازل کراتا ہے۔" نیز آپ؏ نے فرمایا: "ذکر محبوں کی لذّت، نور، رُشد اور اُنس کی چابی ہے۔"1

حضرت مولانا شاہ مقصود عنقا فرماتے ہیں: "ذکر وہ چیز ہے جس کے ذریعے ایک بندہ خداوند کا تقرّب طلب کرتا ہے۔ عوام کا ذکر کلمۂ شہادت یا دوسری تسبیحات اور دعائیں پڑھنا ہے اور خاص لوگوں کا ذکر، ذاکر کا مذکور پر فنا ہونا ہے۔"

حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:

منزّہ ہے وہ ذات، جس نے قرار دیا:
عارفوں کے دلوں کو ذکر کا ظرف۔
زاہدوں کے دلوں کو توکّل کا ظرف۔
متوکّلین کے دلوں کو رضا کا ظرف۔
فقرا کے دلوں کو قناعت کا ظرف۔
اہلِ دنیا کے دلوں کو طمع کا ظرف۔2

حضرت مولانا شاہ مقصود صادق عنقا فرماتے ہیں: عالمِ غیب میں کشفِ حقیقت کے لیے حضورِ قلب سے ذکر نورِ علم کی مداومت ہے۔ ذکر سالک کے سیر و سلوک کو ظاہری دنیا سے باطنی دنیا تک میسّر کرتا ہے۔

ذکر انسان کے طبیعی وجود کو عشقِ خداوند کی آواز سے ہم نوا بناتا ہے، چناں چہ ذکر صحیح طور پر اور اُس کے قاعدے کے مطابق انجام پائے تو فکری، طبیعی اور نفسیاتی پہلوؤں پر مناسب تاثیر پیدا کرتا ہے اور اوہام سے رہائی، جسمانی اور نفسیاتی دباو سے نجات دے کر سکون و اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ سالک کے لیے ذکر کا مقصد مرکزیتِ قلب سے رابطہ قائم کرنا ہے تاکہ دل کی مترنّم آوازکی بدولت دنیاوی وابستگیوں اور طبیعی پہلوؤں کی بندشوں سے نجات پائے اور سکون و اطمینان کا تجربہ کرے۔

ذکر کے دوران زبان کے ذکر کے ساتھ ذاکر کا جسم بھی نواے دل کے ساتھ بائیں سے دائیں طرف لامتناہی علامت کی شکل (∞) میں حرکت کرنے لگتا ہے اور قلب کی عقدۂ حیاتی کی، جو اہم ترین مرکز اور برقناطیسی توانائیوں کا منبع ہے، ہر حرکت میں تمرکز پاتا ہے۔ذکر جسم کی توانائیوں کے مراکز کو حرکت میں لاتا ہے اور اُس کے تزکیے کا سبب بنتا ہے۔

خداوند کا ذکر انسان کو اِس بات پر قدرت دیتا ہے کہ وہ خدا کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کر دے۔

خداوند حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے:

میرا بندہ ہمیشہ نوافل ادا کرتے ہوئے میرے ساتھ تقرّب طلب کرتا ہے تاکہ میں اُسے دوست رکھوں۔ جب میں کسی بندے کو دوست رکھتا ہوں تو اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں، جن کے ذریعے وہ دیکھتا ہے۔ اُس کے کان بنتا ہوں، جن سے وہ سُنتا ہے۔ اُس کی زبان بنتا ہوں، جس سے وہ بولتا ہے، اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں، جن سے وہ پکڑتا ہے۔ اُس کے قدم بن جاتا ہوں، جن سے وہ دوڑتا ہے۔ پس وہ میرے ذریعے دیکھتا ہے، سنتا ہے، بولتا ہے، پکڑتا ہے اور دوڑتا ہے اور اگر مجھ سے مدد طلب کرتا ہے تو میں اُس کی مدد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اُسے جواب دیتا ہوں۔"

حضورِ اکرم (ص) نے فرمایا: "قولوا لا الٰہ الّا اللہ تفلحوا" (تم کہو، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔) اِس فرمان میں لفظ "قولوا" جمع کے صیغے میں ہے۔ یہ اِن معنوں میں ہے کہ کلمہ "لا الٰہ الّا اللہ" کو زبان، جسم، فکر، دل اور جان مجتمع ہو کے، ہم آہنگی کے ساتھ ہمہ پہلو ایک ہوکر بولیں اور ہستی میں اُس کا نقش ثبت کریں۔ زبان، خدا کو لسانی ذکر سے یادکرتی ہے اور فکری قوا خدا کی یاد پر متمرکز ہیں، کان دل کی آواز سنتا ہے اور قلب ذکر کی حرکت کو لامتناہی کی طرف رہبری کرتا ہے اور جسم لا متناہی نقش کے ساتھ قلبی وجود کی مرکزیت کا طواف کرتا ہے۔ اِس طرح انسان کا سارا وجود ظاہری اور باطنی طور پر، ہمہ پہلو، معشوق کی یاد میں اُبھر کر لامتناہی سفر کا آغاز کرتا ہے۔ قلب کی مرکزیت، دوسرے الفاظ میں "مَیں" جو حیات کا منبع و منشا اور یادِ خدا کا سرچشمہ ہے اور یہی نورانیت کے کشف کا آغاز اور عشقِ الٰہی کی ابتدا ہے۔3


I. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa’el – The States of Enlightenment (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 24.
2. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa’el – Al-Salat (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 35.
3. Molana Shah Maghsoud Sadegh Angha, Al-Rasa’el – The States of Enlightenment (Tehran, Iran: M.T.O. Shahmaghsoudi Publications, 1975), 21-23.